Arshi khan

Add To collaction

منٹو کے افسانے भाग 3



منٹو کے افسانے 3
بُڈّھا کھوسٹ
یہ جنگِ عظیم کے خاتمے کے بعدکی بات ہے جب میرا عزیز ترین دوست لیفٹیننٹ کرنل محمد سلیم شیخ ( اب ) ایران ٗ عراق اور دوسرے محاذوں سے ہوتا ہوا بمبئے پہنچا۔ اُس کو اچھی طرح معلوم تھا ، میرا فلیٹ کہاں ہے۔ ہم میں گاہے گاہے خط و کتابت بھی ہوتی رہتی تھی لیکن اس سے کچھ مزا نہیں آتا تھا اس لیے کہ ہر خط سنسر ہوتا ہے۔ ادھر سے جائے یا اُدھر سے آئے عجیب مصیبت تھی۔ مگر اب ان مصیبتوں کا ذکر کیا کرنا۔ اس کی بمبئی کے بی بی اینڈ سی آئی اے کے ٹریسینس پر پوسٹنگ ہوئی۔ اُس وقت وہ صرف لیفٹیننٹ تھا ہم دونوں وسیع و عریض ریلوے اسٹیشن کے بُوفے میں بیٹھ گئے اور دوپہر کے بارہ ایک بجے تک ٹھنڈی ٹھنڈی بیئر پیتے رہے اُس نے اُس دوران میں مجھے کئی کہانیاں سنائیں جن میں سے ایک خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔ اُس نے ایران ، عراق اور خدا معلوم کن کن ملکوں کے اپنے معاشقے سنائے ، میں سنتا رہا پیشہ ور عاشق تو کالج کے زمانے سے تھا اُس کی داستانیں اگر میں سُناؤں تو ایک ضخیم کتاب بن جائے۔ بہر حال آپ کو اتنا بتانا ضروری ہے کہ اسے لڑکیوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کا گر معلوم تھا۔ گورڈن کالج راولپنڈی میں وہ راجہ اندر تھا۔ اس کے دربار میں وہاں کی تمام پریاں مجرا عرض کرتی تھیں خوبصورت تھا کافی خوبصورت مگر اُس کا حسن مردانہ حسن تھا۔ پتلی نوکیلی ناک جو یقیناً اپنا کام کر جاتی ہوگی چھوٹی چھوٹی گہرے بھوسلے رنگ کی آنکھیں جو اُس کے چہرے پر سج گئی تھیں بڑی ہوتیں تو شاید اس کے چہرے کی ساری کشش ماری جاتی۔ وہ کھلنڈرا تھا جس طرح لارڈ بائرن صرف کچھ عرصے کے لیے کسی سے دلچسپی لیتا تھا اور اُسے چھوڑ کر آگے بڑھ جاتا، جیسے وہ اُس کی زندگی میں کبھی آئی ہی نہیں اسی طرح کا سلوک وہ اپنے جال میں پھنسی ہوئی لڑکیوں سے کرتا ، مجھے اُس کا یہ روّیہ پسند نہیں تھا کہ یہ میری نظر میں بہت ظالمانہ ہے مگر وہ بے پروا تھا کہا کرتا اُلو کے پٹھے غالبؔ پڑھو وہ کیا کہتا اسے متن یاد کبھی نہیں رہتا تھا مگر اس کا مفہوم اپنے الفاظ میں ادا کر دیا کرتا وہ کہتا ہے ، وہی شاخِ طوبیٰ اور جنت میں وہی ایک حور واللہ زندگی اجیرن ہو جائے گی شہد کی مکھی بنو ٗ کلی کلی کا رس چوسو مکھی لکھی مصری کی نہ بنو جووہیں چپک کر رہ جائے ’’ پھر اُس نے اقبال کے ایک شعر کا حوالہ اپنا بیئر کا گلاس خالی کرتے ہوئے دیا ’’کیا کہا ہے اقبال نے ؂ تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا ثابت ہوا کہ تم نہ صرف ناداں ہو بلکہ درجہ اوّل بناسپتی گھی کی طرح درجہ اوّل چغد بھی ہو اب ہٹاؤ اس بکواس کو۔ ‘‘ میں نے یہ بکواس اس طرح ہٹائی جس طرح بیرے نے میری بیئر کی خالی بوتل پیشتر اس کے کہ میں اصل کہانی کی طرف آؤں۔ میں آپ کو شیخ سلیم سے متعلق ایک بہت دلچسپ واقعہ سناتا ہوں۔ ہم گورڈن کالج میں بی اے فائنل میں پڑھتے تھے کہ کرسمس کی چھٹیوں میں ایک رکمنی کی شادی کی اُڑتی اُڑتی افواہ ہمیں ملی۔ یہ رکمنی ہماری ہی کسی کلاس میں پڑھتی تھی اور کچھ عرصہ پہلے بُری طرح شیخ سلیم پر فریفتہ شکل صورت اُس کی واجبی تھی مگر میرا دوست شہد کی مکھی تھا چنانچہ دو مہینے ان کا معاشقہ چلتا رہا اُس کے بعد وہ اس سے بالکل اجنبی ہوگیا۔ جب اُس کو بتایا گیا کہ رکمنی جو تمہاری محبوبہ تھی اور جس کی خاطر تم نے اتنے جھگڑے اپنی کلاس کے طالب علموں سے کیے ’’ وہ اگر دوسری جگہ بیاہی جائے تو ڈوب مرو لیکن تم تیرنا جانتے ہو ڈوبنے کا کام ہم اپنے ذمے لیتے ہیں ‘‘۔ شیخ سلیم کو اس قسم کی باتیں عموماً کھا جاتی تھیں۔ اس نے اپنی مہین مہین مونچھوں کو تاؤ دینے کی کوشش کی اور کہا ’’ اچھا ، تم دیکھ لینا کیا ہوگا‘‘ اُس کی پارٹی کے ایک قوی ہیکل لڑکے نے پوچھا کیا ہوگا؟‘‘ شیخ سلیم نے اس کو جھاگ کی طرح بٹھا دیا ’’ ہوگا تمہاری ماں کا سر جب شادی کا دن آئے گا، دیکھ لینا چلو آؤ میرے ساتھ مجھے تم سے چند باتیں کرنی ہیں۔ ‘‘ شادی کا دن آگیا۔ بارات جب دولہا والوں کے گھر کے پاس پہنچی تو کوئی شخص سر پر سہرے باندھے بڑے اچھے گھوڑے پر س

   1
0 Comments